کوئی سمجھتا ہے سارے کہاں سمجھتے ہیں
تمام لوگ اشارے کہاں سمجھتے ہیں
کسی کے عشق میں بہتی ندی کی مجبوری
شدید پیاس کے مارے کہاں سمجھتے ہیں
نہ جانے کون سا لمحہ زمیں پہ لے آئے
فلک پہ جھومتے تارے کہاں سمجھتے ہیں
بس اتنا سوچ کے کشتی میں بھر لیا پانی
ندی کا درد کنارے کہاں سمجھتے ہیں
سلگتے صحرا میں بھٹکا ہوا مسافر ہوں
مجھے چمن کے نظارے کہاں سمجھتے ہیں
ہم ایسے لوگوں سے پوچھو مقام کی قیمت
جنہیں ملے ہوں سہارے کہاں سمجھتے ہیں
آدرش دبے
آدرش دبے